پاکستان میں ایک کروڑ گداگر مافیا روزانہ کتنا پیسہ اکٹھا کرتا ہے،ہوش ربا انکشافات، دیکھیے اس رپورٹ میں

پاکستان میں غربت کے حوالے سے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ملک بھر میں کیے جانے والے سروے میں حیرت انگیز انکشافات سامنے ائے ہیں جس نے ماہرین کے ہوش اڑا دیے اس سروے کے مطابق
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد ابادی میں تین کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں ۔ ان میں بھارت فیصد مرد 55 فیصد خواتین 27 فیصد بچے اور بقایا چھ فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں ۔ 2024 میں کیے گئے سروے میں پاکستان میں غربت کے بڑھتے ہوئے ناسور کے صد باب کے لیے سروے میں حیران کن بات یہ سامنے ائی ہے کہ اس گدھا گر مافیا میں 50 فیصد کراچی 16 فیصد لاہور سات فیصد اسلام اباد جبکہ بقایہ ملک کے مختلف علاقوں میں عوام کی جیبوں پر بھی کے ذریعے ڈاکا ڈالا جا رہا ہے ۔
اس سروے کے مطابق کراچی میں روزانہ اوسطن فی بھکاری
دو ہزار روپے لاہور میں 1400 روپے اور اسلام اباد میں 950 روپے کماتا ہے ۔جب کہ سروے کے مطابق پورے ملک میں فی بھکاری اوسطا 850 روپے کماتا ہے یوں یہ بھکاری مافیا ملک بھر سے 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں جو کہ سالانہ رقم 117 کھرب روپے بنتی ہے ۔ اس رقم کو اگر ڈالر میں تبدیل کیا جائے تو یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے ۔ائیں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھائیں اگر یہ تین کروڑ 80 لاکھ افراد کام کریں تو فی کس 2 ہزار روپے کی پروڈکٹ بنا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ روزانہ 76 ارب روپے یعنی 27 کروڑ ڈالر کی گھریلو صنعت کے ذریعے سے مختلف مصنوعات بنا سکتے ہیں ۔اگر ان افراد کی کارکردگی کی 50 فیصد پوست بھی لیں تو پھر بھی اعداد و شمار کے مطابق سا لانا 39 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے۔دیکھا جائے تو بغیر کسی منافع بخش کام کے ان گداگروں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیبوں سے تقریبا 42 ارب ڈالر سالانہ نکال لیے جاتے ہیں۔اس طرز کھانے کے نتیجے میں عام ادمی کو سالانہ 21 فیصد مہنگائی کا سامنا کرتا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لیے تین کروڑ 80 لاکھ اس عظیم الشان افرادی قوت کسی بھی کام نہیں اتی بلکہ عام ادمی اور معیشت پر بوجھ کی صورت میں قوم پر عذاب کی صورت میں نازل ہوتی ہے ۔ ہم دوسری طرف اس ادارے کے مطابق اس کہتا ہے گداگر مافیا کی افرادی قوت استعمال کر کےسالانہ 38 ارب ڈالر اضافہ ہو سکتا ہے ۔جو کہ نہ صرف ہمارے ملک کو اپنے پاؤں پر معاشی طور پر کھڑا کر سکتا ہے بلکہ موجودہ گداگروں کے لیے بازد روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔اس ضمن میں یہ بتاتے چلیں کہ گلی گلی میں موجود لنگر خانے ایدی سینٹرز سیلانی مرکز اور فری دسترخوان کے ذریعے صرف گداگر مافیا کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے اور یہ عمل نہ دانستہ طور پر کی معاشی تباہی میں بھرپور ادا کر رہا ہے ۔اگر یہی ادارے ریڈی میڈ گارمنٹس اور کاشتکاری کے ذریعے اس افرادی قوت کا بھرپور استعمال ان کو روزانہ اجرت اور کھانے کے ذریعے کریں تو یہ افرادی قوت معاشی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ضمن میں بنگلہ دیش کا رول ماڈل ہمارے لیے مشعل راہ ہے،اگر اس مذہبی پہلو سامنے لایا جائے تو یہ امر قابل ذکر ہے کہ از بھیک مدرسوں کے چندے مزارات کے چڑھاوے اور غیر مستحق افراد کو دیے جانے والی بھاری رکوم کے ذریعے اپنے بچوں کا معاشی مستقبل مزید بھیانک دیکھنا چاہتے ہیں تو جنت کا مال ہے تا ہم اگر اپ اپنی نسلوں کے لیے بہتر معاشی نظام چاہتے ہیں تو اج ہی سے ان تمام پیشور بھکاریوں کو خدا حافظ کہہ ڈالیں اور اس مافیا کا مکمل بائیکاٹ کر دیں ۔